EN हिंदी
بزم میں وہ سرفرازی کی علامت لے گئے | شیح شیری
bazm mein wo sarfaraazi ki alamat le gae

غزل

بزم میں وہ سرفرازی کی علامت لے گئے

محسن احسان

;

بزم میں وہ سرفرازی کی علامت لے گئے
جب گئے تو ساتھ میرا قد و قامت لے گئے

یہ غنیمت ہے کہ اس کوئے دل آزاری سے ہم
بارش سنگ ستم میں سر سلامت لے گئے

پیش کرنے کو نہ تھا کچھ بھی تہی دستوں کے پاس
شہر بے توقیر سے زاد ندامت لے گئے

کوئی بھی آثار جس کے اپنے چہرے پر نہ تھے
ہم چھپا کر دھڑکنوں میں وہ قیامت لے گئے

سایۂ امن و اماں میں آشنا سوتے رہے
ہم تن تنہا یہ انبار ملامت لے گئے

انجمن میں اس کی محسنؔ چند بونے جمع تھے
تم وہاں کس زعم میں یہ قد و قامت لے گئے