بزم انساں میں بھی اک رات بسر کر دیکھو
ایک بار اپنی زمیں پر بھی اتر کر دیکھو
اس افق پر نہ اگر جنت موعودہ ملی
اس افق تک بھی جو چاہو تو سفر کر دیکھو
کوئی ڈوبی ہوئی کشتی ہے کہ ساحل کا نشاں
اپنی سوچوں کے سمندر سے ابھر کر دیکھو
خود کو دیکھو مرے معیار کے آئینے میں
اک ذرا مجھ پہ یہ احسان بھی دھر کر دیکھو
موسم گل ہے تو کردار چمن کیوں بدلے
آگ پھولوں کو تو شبنم کو شرر کر دیکھو
ہر زمانے میں بجھے تو نہیں رہتے خورشید
گردشو آج مری شب کو سحر کر دیکھو
غزل
بزم انساں میں بھی اک رات بسر کر دیکھو
احمد ندیم قاسمی