بیان شوق کو مفہوم سے جدا نہ کرے
صدا وہی ہے جو لفظوں کو بے صدا نہ کرے
کرن کرن نے سنبھل کر یہ ہم کو درس دیا
مثال اشک کوئی آنکھ سے گرا نہ کرے
ہوا کے جھونکوں سے خوشبو کے پردے ہلتے ہیں
حریم لالہ و گل میں کوئی چھپا نہ کرے
ہماری آنکھیں شب و روز جیسے جلتی ہیں
کوئی چراغ جلے بھی تو یوں جلا نہ کرے
ہمیں چراغ بھی ہیں اور ہمیں ہوا بھی ہیں
ہماری زیست پہ اب کوئی تبصرہ نہ کرے
بڑھے گی اور بھی کچھ فاصلوں کی تنہائی
جو تیز گام ہے وہ راہ میں رکا نہ کرے
ترے خیال تری یاد میں جو گزرا ہے
کبھی وہ لمحہ کسی جا پہ آشیانہ کرے
صدائے غم سے لرزتی ہے زندگی مطربؔ
لچکتی شاخ سے بھی پھول اب گرا نہ کرے

غزل
بیان شوق کو مفہوم سے جدا نہ کرے
مطرب نظامی