بستی سے چند روز کنارہ کروں گا میں
وحشت کو جا کے دشت میں مارا کروں گا میں
ویسے تو یہ زمین مرے کام کی نہیں
لیکن اب اس کے ساتھ گزارا کروں گا میں
شاید کہ اس سے مردہ سمندر میں جان آئے
صحرا میں کشتیوں کو اتارا کروں گا میں
منظر کا رنگ رنگ نگاہوں میں آئے گا
اک ایسے زاویے سے نظارہ کروں گا میں
اے مہرباں اجل مجھے کچھ وقت چاہیئے
جب جی بھرا تو تم کو اشارہ کروں گا میں
غزل
بستی سے چند روز کنارہ کروں گا میں
احمد خیال