بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں
یہ بات نقص نظر کے سوا کچھ اور نہیں
حیات کی شب تاریک ختم ہوتی ہے
قضا طلوع سحر کے سوا کچھ اور نہیں
جو دیکھیے تو کف گل فروش بھی ہے حیات
غلط کہ دامن تر کے سوا کچھ اور نہیں
گزر کے حد سے ہر اک شے برعکس ہوتی ہے
کمال عیب ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
یہ رنگ جو نظر آتا ہے چہرۂ گل پر
ہمارے خون جگر کے سوا کچھ اور نہیں
بشر ہے جوہر کردار سے گراں مایہ
گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں
نظر فریب نظارے جہاں کے اے فاضلؔ
فریب حسن نظر کے سوا کچھ اور نہیں

غزل
بشر کی ذات میں شر کے سوا کچھ اور نہیں
فاضل انصاری