بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دور ہٹ گیا
پھر درمیان عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی
پھر مجمع خواص گروہوں میں بٹ گیا
کیا اب بھی تیری خاطر نازک پہ بار ہوں
پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگ گل سے کٹ گیا
وہ لمحۂ شعور جسے جاں کنی کہیں
چہرے سے زندگی کی نقابیں الٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت سے لوٹ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
آخر شکیبؔ خوئے ستم اس نے چھوڑ دی
ذوق سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا
غزل
بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
شکیب جلالی