بس ایک وہم ستاتا ہے بار بار مجھے
دکھائی دیتا ہے پتھر کے آر پار مجھے
مرا خدا ہے تو مجھ میں اتار دے مجھ کو
کہ ایک عمر سے اپنا ہے انتظار مجھے
میں لفظ لفظ بکھرتا رہا فضاؤں میں
مری صدا سے وہ کرتا رہا شکار مجھے
جو ڈھال دیتے ہیں پرچھائیوں کو پتھر میں
اب ایسے سخت دلوں میں نہ کر شمار مجھے
ہوا کچھ ایسی چلی خون کو نشاں نہ ملا
غبار راہ کو تکتا ہوں میں غبار مجھے
حصار مرگ میں گھٹ جائے گی صدا تیری
تو دور ہے تو ذرا دیر تک پکار مجھے
غزل
بس ایک وہم ستاتا ہے بار بار مجھے
شمیم حنفی