بس ایک ہجر کے موسم کا رنگ گہرا تھا
ہر ایک رت کو چکھا تھا برت کے دیکھا تھا
اس ایک لمحے میں کتنی قیامتیں ٹوٹیں
بس ایک لمحے کو تیرے اثر سے نکلا تھا
کوئی چراغ بھی رخت سفر میں رکھ لیتے
سفر میں رات بھی آئے گی یہ نہ سوچا تھا
خود اپنے آپ کو چھونے کا حوصلہ نہ رہا
کہ میرے جسم پہ میرا ہی خون پھیلا تھا
وہ آج مجھ سے ملا ہے تو کتنا بنجر ہے
جو اپنی آنکھ میں ساون کے رنگ رکھتا تھا
نہ اس کی چھاؤں تھی میری نہ پھول تھے میرے
شجر تھا صحن میں اپنے مگر پرایا تھا
وہ ساحلوں پہ پڑا اب خلا کو تکتا ہے
جو پانیوں میں اترتا تھا سیپ چنتا تھا
اٹا ہے دھول سے کمرہ ہے طاق بھی سونا
کبھی گلاب سجے تھے چراغ جلتا تھا

غزل
بس ایک ہجر کے موسم کا رنگ گہرا تھا
قیوم طاہر