EN हिंदी
بس ایک بار اٹھیں سامنا ہی کر ڈالیں | شیح شیری
bas ek bar uThen samna hi kar Dalen

غزل

بس ایک بار اٹھیں سامنا ہی کر ڈالیں

مرغوب اثر فاطمی

;

بس ایک بار اٹھیں سامنا ہی کر ڈالیں
وبال جان ہے ڈر خاتمہ ہی کر ڈالیں

قبولیت کو سنا ہے کہ ضد دعا سے ہے
تو کیوں نہ ایسا کریں بد دعا ہی کر ڈالیں

کھسکتے لمحوں سے یہ زندگی نے پوچھ لیا
حقیر ہم ہیں کہ تم فیصلہ ہی کر ڈالیں

نشاط و کیف کے سامان عن قریب کہاں
اب اختصار صف مدعا ہی کر ڈالیں

ارادہ کر جو لیا ترک خود کلامی کا
تو یاد ماضی کا غم مکتبہ ہی کر ڈالیں

اثرؔ زبان کو دشواریاں بھی ہیں لاحق
سو اہتمام کوئی دوسرا ہی کر ڈالیں