بس ایک بار اٹھیں سامنا ہی کر ڈالیں
وبال جان ہے ڈر خاتمہ ہی کر ڈالیں
قبولیت کو سنا ہے کہ ضد دعا سے ہے
تو کیوں نہ ایسا کریں بد دعا ہی کر ڈالیں
کھسکتے لمحوں سے یہ زندگی نے پوچھ لیا
حقیر ہم ہیں کہ تم فیصلہ ہی کر ڈالیں
نشاط و کیف کے سامان عن قریب کہاں
اب اختصار صف مدعا ہی کر ڈالیں
ارادہ کر جو لیا ترک خود کلامی کا
تو یاد ماضی کا غم مکتبہ ہی کر ڈالیں
اثرؔ زبان کو دشواریاں بھی ہیں لاحق
سو اہتمام کوئی دوسرا ہی کر ڈالیں

غزل
بس ایک بار اٹھیں سامنا ہی کر ڈالیں
مرغوب اثر فاطمی