EN हिंदी
بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا | شیح شیری
bas ai falak nashat-e-dil ka intiqam ho chuka

غزل

بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا

ثاقب لکھنوی

;

بس اے فلک نشاط دل کا انتقام ہو چکا
ہنسا تھا جس قدر کبھی زیادہ اس سے رو چکا

نہ ذکر انبساط کر کہ دور عیش ہو چکا
خوشی کی فکر کس لیے وہ دل کہاں جو کھو چکا

یہ خندۂ طرب نما مبارک اہل دہر کو
بہت زمانہ ہو گیا کہ میں ہنسی کو رو چکا

وفا جو زندگی میں تھی وہی ہے بعد مرگ بھی
یہ امتحان رہ گیا وہ امتحان ہو چکا

نہ دم لے اے سرشک غم تجھے قسم ہے عشق کی
فلک کو چھوڑتا ہے کیوں اگر مجھے ڈبو چکا

رہے وہ دل میں مدتوں مگر سنبھل سکا نہ میں
مزاج حسن و عشق کو بہت دنوں سمو چکا

یہ آشیانۂ ستم چمن میں ہو تو خوب ہے
یہ جی میں ہے کہ لے اڑوں قفس تو میرا ہو چکا

خبر نہیں یہ جاگنا ہے زیست تک کہ بعد بھی
جو ساتھ دل رہا یہی تو میں لحد میں سو چکا

نکل کے راہ عشق سے کسی طرف چلوں تو کیا
کہاں سے لاؤں جان و دل یہ دے چکا وہ کھو چکا

یہ تو نہیں کہ وعدۂ وفا کو روندتا پھرے
یہ میں ہوں سرفروش دل جو کہہ دیا وہ ہو چکا

یہ ثاقبؔ ایک سلک ہے خزانہ ہائے راز کی
گہر وہ شاہوار ہیں جنہیں میں یوں پرو چکا