برسوں سے ہوں میں زمزمہ پرداز محبت
آئی نہ جواباً کبھی آواز محبت
اک درد محبت ہے مری ہر رگ و پے میں
ہر سانس ہے اب میرا اک آواز محبت
ہر چند کہ ہر بزم میں ٹھکرائی گئی ہے
آواز محبت ہے پھر آوازۂ محبت
معمور ہیں آواز محبت سے فضائیں
مستور ہے گو صاحب آواز محبت
آ جائے ذرا سینۂ آفاق میں گرمی
ہو جائے ذرا شعلہ زن آواز محبت
یہ دور ہے دور ہوس اس دور میں اے دل
سنتا نہیں دل سے کوئی آواز محبت
جس شخص کے سینہ میں ہے دل کی جگہ پتھر
سمجھے گا وہ کیا معنیٔ آواز محبت
اس دور تگ و دو میں وفا کون سنے گا
کتنی ہی دل آویز ہو آواز محبت
غزل
برسوں سے ہوں میں زمزمہ پرداز محبت
میلہ رام وفاؔ