برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
آشیانوں نے خاک رولی ہے
یاد کا کیا ہے آ گئی پھر سے
آنکھ کا کیا ہے پھر سے رو لی ہے
تم بچھا لو مصلیٔ چاہت
میں نے دہلیز دل کی دھو لی ہے
دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے
دل کی بولی عجیب بولی ہے
پردہ اٹھتے ہی میری نظروں سے
کائنات یقین ڈولی ہے
مسکرائے نہ چاند کیوں مفتیؔ
آئی جو چاندنی کی ڈولی ہے
غزل
برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
ابن مفتی