EN हिंदी
برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا | شیح شیری
barhaman mujhko banana na musalman karna

غزل

برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا

بیدم شاہ وارثی

;

برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا
میرے ساقی مجھے مست مے عرفاں کرنا

داغ دل سینے میں آہوں سے نمایاں کرنا
ہم سے سیکھے شب غم کوئی چراغاں کرنا

حرم و دیر میں جا جا کے چراغاں کرنا
جستجو تیری ہمیں تا حد امکاں کرنا

دل کے بہلانے کا وحشت میں یہ ساماں کرنا
چشم خوں بار سے دامن کو گلستاں کرنا

ہوس سیر گلستاں نے قفس دکھلایا
اب اسیرو نہ کبھی قصد گلستاں کرنا

اہل بیداد کے جب نام پکارے جائیں
تم نہ گھبرا کے سر حشر کہیں ہاں کرنا

نہ کبھی میں نے کہا تھا کہ مجھے درد ملے
نہ کہوں گا کہ مرے درد کا درماں کرنا

ان کے دیوانوں کو سر پھوڑ کے دیواروں سے
آج منظور ہے آرائش زنداں کرنا

شیخ کو کعبہ مبارک ہو برہمن کو کنشت
ہم کو سجدہ طرف کوچۂ جاناں کرنا

اے صبا تجھ کو اسی زلف پریشاں کی قسم
میرا شیرازۂ ہستی بھی پریشاں کرنا

ان کے دیوانوں کی اعجاز نگاہی دیکھو
آنکھ اٹھانا کہ گلستاں کو بیاباں کرنا

داغ دل پردے میں رہ جائے نہ اے دست جنوں
چاک کچھ اور ابھی میرا گریباں کرنا

لا کے پھر مصر میں اے عشق کسی یوسف کو
پھر نئے رنگ سے آرائش زنداں کرنا

دشت غربت میں ترے خاک نشیں اچھے ہیں
چاہئے اور انہیں بے سر و ساماں کرنا

ذوق سجدہ تجھے سنگ در جاناں کی قسم
ہوش کا مجھ کو نہ شرمندۂ احساں کرنا

اٹھ رہے ہیں مرے نظروں سے دوئی کے پردے
کچھ مدد اور خیال رخ جاناں کرنا

بن گئے حیرت نظارہ کی صورت بیدمؔ
راس آیا نہ ہمیں دید کا ارماں کرنا