برائے زیب اس کو گوہر و اختر نہیں لگتا
وہ خود اک چاند ہے اور چاند کو زیور نہیں لگتا
خدایا یوں بھی ہو کہ اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں
وہی اک ایسا قاتل ہے جو پیشہ ور نہیں لگتا
اگر عارض پرستی کا عمل اک جرم بنتا ہے
سزا بھی کاٹ لیں گے کاٹنے سے ڈر نہیں لگتا
محبت تیر ہے اور تیر باطن چھید دیتا ہے
مگر نیت غلط ہو تو نشانے پر نہیں لگتا
رئیس شہر ہو کر بھی وہ اتنا جھک کے ملتا ہے
کہ اس کے سامنے کوئی بھی قد آور نہیں لگتا
غزل
برائے زیب اس کو گوہر و اختر نہیں لگتا
احمد کمال پروازی