برائے نام سہی حاصل طلب ٹھہرا
وہ ایک لمحہ جو سرمایۂ طرب ٹھہرا
کھلے سروں پہ گھنی چھاؤں لے کے آیا تھا
ہمارے پاس وہ ابر رواں بھی کب ٹھہرا
نقیب امن رہا میں محاذ جنگ پہ بھی
یہی اصول مری فتح کا سبب ٹھہرا
کیا تھا جس کو کبھی تیرے نام سے منسوب
وہی صحیفہ تو سرمایۂ ادب ٹھہرا
وہی مرے لیے وجہ نشاط روح تھا نازؔ
وہ اک تبسم رنگیں جو زیر لب ٹھہرا
غزل
برائے نام سہی حاصل طلب ٹھہرا
ناز قادری