بر سر درد زمانے کا بھی سوچا جائے
پھر نیا قرض اٹھانے کا بھی سوچا جائے
سامنے چاند ہے پر اور کوئی چارہ نہیں
چشم نمناک چرانے کا بھی سوچا جائے
حدت حسن نظر سے بھی بچا کر خود کو
عشق میں رسک اٹھانے کا بھی سوچا جائے
خواب سے لپٹی ہوئے یاد کے سادہ لمحو
درد کے ہاتھ نہ آنے کا بھی سوچا جائے
عشق تو یار اداؤں کو نگل جاتا ہے
حسن بے باک بچانے کا بھی سوچا جائے
سگرٹیں پھونک کے کچھ جام چڑھا کر جاناں
کچھ ترا ہجر منانے کا بھی سوچا جائے

غزل
بر سر درد زمانے کا بھی سوچا جائے
صائم جی