بنتی ہے سنورتی ہے بکھر جاتی ہے دنیا
اڑتی ہوئی مٹی سی گزر جاتی ہے دنیا
ہوتے ہیں سبھی خوف زدہ چاند گہن سے
خود اپنے ہی سائے سے بھی ڈر جاتی ہے دنیا
آواز کوئی دیتا ہے صدیوں کے سفر سے
اک پل کے لئے جیسے ٹھہر جاتی ہے دنیا
شاید یہی عمروں کی مشقت کا ثمر ہے
باہوں میں تھکن بن کے اتر جاتی ہے دنیا
آتی ہے کوئی یاد کبھی چاند پہن کر
آنکھوں میں کسی شام نکھر جاتی ہے دنیا

غزل
بنتی ہے سنورتی ہے بکھر جاتی ہے دنیا
افتخار بخاری