بند غم مشکل سے مشکل تر کھلا
ہم سے جب کوئی پری پیکر کھلا
مل گئی وحشی کو سودا سے نجات
در کھلا دیوار میں یا سر کھلا
جاں ستانی کے نئے انداز ہیں
ہاتھ میں غمزے کے ہے خنجر کھلا
میری وحشت نے نکالے جب سے پاؤں
ایک صحرا صحن کے اندر کھلا
دیکھنے میں وہ نگاہ لطف تھی
کس سے پوچھیں زخم دل کیوں کر کھلا
کوئی جادہ ہے نہ منزل ہے کوئی
سب فریب راہی و رہبر کھلا
ہے قیامت اس کی مژگاں کا خیال
رکھ دیا ہے دل میں اک نشتر کھلا
یہ زلیخائی! کہ یوسف کے لئے
مصر کا بازار ہے گھر گھر کھلا
نو امیدی سے بندھی تابشؔ امید
ابر غم دل پر بہت گھر کر کھلا
غزل
بند غم مشکل سے مشکل تر کھلا
تابش دہلوی