EN हिंदी
بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا | شیح شیری
bana hai apne aalam mein wo kuchh aalam jawani ka

غزل

بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا

نظیر اکبرآبادی

;

بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا
کہ عمر خضر سے بہتر ہے ایک اک دم جوانی کا

نہیں بوڑھوں کی داڑھی پر میاں یہ رنگ وسمے کا
کیا ہے ان کے ایک ایک بال نے ماتم جوانی کا

یہ بوڑھے گو کہ اپنے منہ سے شیخی میں نہیں کہتے
بھرا ہے آہ پر ان سب کے دل میں غم جوانی کا

یہ پیران جہاں اس واسطے روتے ہیں اب ہر دم
کہ کیا کیا ان کا ہنگامہ ہوا برہم جوانی کا

کسی کی پیٹھ کبڑی کو بھلا خاطر میں کیا لاوے
اکڑ میں نوجوانی کے جو مارے دم جوانی کا

شراب و گل بدن ساقی مزے عیش و طرب ہر دم
بہار زندگی کہئے تو ہے موسم جوانی کا

نظیرؔ اب ہم اڑاتے ہیں مزے کیا کیا اہا ہا ہا
بنایا ہے عجب اللہ نے عالم جوانی کا