EN हिंदी
بلا کش غم گیتی ہے جان زار ابھی | شیح شیری
bala-kash-e-gham-e-geti hai jaan-e-zar abhi

غزل

بلا کش غم گیتی ہے جان زار ابھی

جلیل شیر کوٹی

;

بلا کش غم گیتی ہے جان زار ابھی
حیات سر پہ اٹھائے ہوئے بار ابھی

ملی کہاں ہے تجھے تیری رہ گزار ابھی
ہے یاں سے دور بہت دور کوئے یار ابھی

مہہ‌ و نجوم فسردہ گل و سمن گریاں
ہے کائنات مرے غم میں سوگوار ابھی

کہوں تو کیسے کہوں اس کو دور عدل و عطا
ہے دار و گیر ابھی جبر و اختیار ابھی

بلائیں آئیں ستم پر ستم ہوئے لیکن
بدل سکا نہ زمانہ مرا شعار ابھی

ستارے ڈوب گئے شمعیں بجھ گئیں جل کر
کھلی ہوئی ہے مگر چشم انتظار ابھی

دیار دل میں نہ جانے ہے کب سے ویرانی
ولیک شہر نگاراں میں ہے بہار ابھی

اٹھو سنوارو نکھارو حیات نو بخشو
عروس دہر کی آنکھوں میں ہے خمار ابھی

نہ نام لو گے جفاؤں کا بھول کر بھی جلیلؔ
نہیں ہوئے ہو جفاؤں سے ہمکنار ابھی