EN हिंदी
بجا کہ لطف ہے دنیا میں شور کرنے کا | شیح شیری
baja ki lutf hai duniya mein shor karne ka

غزل

بجا کہ لطف ہے دنیا میں شور کرنے کا

عبد الاحد ساز

;

بجا کہ لطف ہے دنیا میں شور کرنے کا
نشہ کچھ اور ہے گم نام موت مرنے کا

عبث ہے زعم سمندر کے پار اترنے کا
یہ سلسلہ ہے فقط ڈوبنے ابھرنے کا

عجب سماں تھا کہ تذلیل بھی تھی کیف انگیز
وہ میرا وقت تری سیڑھیاں اترنے کا

کفن میں پاؤں ہلیں پیرہن میں لاش چلے
ہمارا عہد نہ جینے کا ہے نہ مرنے کا

یہ آگہی کا مرض لا علاج ہے بابا
بخار اترنے کا ہے یہ نہ زخم بھرنے کا

یہی وہ ساعت فن جس میں آپ ہوں نہ مخل
یہی ہے وقت مگر ہم سے بات کرنے کا

سبھی نے پیار سے صرف نظر کیا ہم کو
نہ آیا سازؔ طریقہ ہمیں اکھرنے کا