EN हिंदी
بہت ذی فہم ہیں دنیا کو لیکن کم سمجھتے ہیں! | شیح شیری
bahut zi-fahm hain duniya ko lekin kam samajhte hain!

غزل

بہت ذی فہم ہیں دنیا کو لیکن کم سمجھتے ہیں!

باقر مہدی

;

بہت ذی فہم ہیں دنیا کو لیکن کم سمجھتے ہیں!
عجب قصہ ہے سب کچھ جان کر مبہم سمجھتے ہیں

ہوائیں تیز تر ہیں آج بادل آنے والے ہیں
تڑپتے سرد جھونکوں کو بھی سب موسم سمجھتے ہیں

زمیں کروٹ بدلتی ہے نئے رنگوں میں ڈھلتی ہے
نجومی کس طرح دنیا کے پیچ و خم سمجھتے ہیں

فلک غائب ہوا یہ چاند تارے خاکداں سے ہیں
انہیں بھی لوگ اک دنیا نیا عالم سمجھتے ہیں

بہت دانائے راز آئے ہزاروں نکتہ داں آئے
سمجھنے کے لیے وہ زندگی کو غم سمجھتے ہیں

ہوئی تخلیق کیسے آج تک کوئی نہیں سمجھا
نکالے کب گئے یہ حضرت آدم سمجھتے ہیں

نہ کوئی اشک شوئی ہے نہ چہرہ زرد ہے باقرؔ
ہماری خامشی کو پھر بھی وہ ماتم سمجھتے ہیں