بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے
انا کے سب حصاروں کو ضرورت توڑ دیتی ہے
جھکایا جا نہیں سکتا جنہیں جبر و عداوت سے
انہیں بھی اک اشارے میں محبت توڑ دیتی ہے
کسی کے سامنے جب ہاتھ پھیلاتی ہے مجبوری
تو اس مجبور کو اندر سے غیرت توڑ دیتی ہے
ترس کھاتے ہیں جب اپنے سسک اٹھتی ہے خودداری
ہر اک خوددار انساں کو عنایت توڑ دیتی ہے
سمندر پار جا کر جو بہت خوش حال دکھتے ہیں
یہ ان کے دل سے پوچھو کیسے ہجرت توڑ دیتی ہے
نبھانا دل کے رشتوں کو نہیں ہے کھیل بچوں کا
کہ ان شیشوں کو اک ہلکی سی غفلت توڑ دیتی ہے
غزل
بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے
جاوید نسیمی