بہت ملول بڑے شادماں گئے ہوئے ہیں
ہم آج ہم رہ گم گشتگاں گئے ہوئے ہیں
اگرچہ آئے ہوؤں ہی کے ساتھ ہیں ہم بھی
مگر گئے ہوؤں کے درمیاں گئے ہوئے ہیں
نظر تو آتے ہیں کمروں میں چلتے پھرتے مگر
یہ گھر کے لوگ نہ جانے کہاں گئے ہوئے ہیں
سحر کو ہم سے ملو گو کہ شب میں بھی ہیں یہیں
یہ کوئی ٹھیک نہیں کب کہاں گئے ہوئے ہیں
کہیں سے لوٹ کے قصے سنائیں گے تم کو
کہیں سنانے کو ہم داستاں گئے ہوئے ہیں
تلاشیے پھر انہیں میں تراشیے پھر انہیں
یہی وسیلے کہ جو رائیگاں گئے ہوتے ہیں
ابھی تعین سطح کلام کیا پوچھو
ابھی تو ہم تہہ عجز بیاں گئے ہوئے ہیں
بجا کہ راز کی باتیں بتائیں گے تمہیں سازؔ
مگر سنبھل ہی کے سننا میاں گئے ہوئے ہیں
غزل
بہت ملول بڑے شادماں گئے ہوئے ہیں
عبد الاحد ساز