بہت خوددار ہے گھٹنوں کے بل چل کر نہیں آتا
وہ لکھتا ہے بہت اچھا مگر چھپ کر نہیں آتا
محبت خلوت دل میں اتر جاتی ہے چپکے سے
یہ ایسا ہے مرض یارو کبھی کہہ کر نہیں آتا
رضا اس کی بہاتی ہے تو پتوں کو کنارہ ہے
مگر خود تیرتا ہے آدمی بہہ کر نہیں آتا
جو اس کے دل میں آتا ہے وہی کہتا ہے محفل میں
کبھی لکھ کر نہیں لاتا کبھی پڑھ کر نہیں آتا
بڑے لوگوں سے ملتا ہے بہت مشہور دنیا میں
وہ ایسا شخص کہ الزام بھی اس پر نہیں آتا
فقط قابل ہوا تو کیا بہت کافی نہیں اتنا
سفارش کے لیے وہ کیوں اسے مل کر نہیں آتا

غزل
بہت خوددار ہے گھٹنوں کے بل چل کر نہیں آتا
سدیش کمار مہر