بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو
طلب ہے شرط سکوں کے ہزار ہا پہلو
جو بے خودی ہے سلامت تو مل ہی جائے گا
برائے فرصت اندیشہ یار کا زانو
ہزار دشت بلا حلقۂ اثر میں ہیں
مرا جنوں ہے کہ چشم غزال کا جادو
یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے
سکوں کی ایک نظر درد کے بہت پہلو
صبا ہزار کرے بوئے گل کی آمیزش
نہ دب سکے گی ترے جسم ناز کی خوشبو
اک اضطراب حسیں ہے فشار تنگیٔ مے
کنار شوق میں تو ہے کہ دام میں آہو
بہت ہے اہل بصیرت کو ایک جلوہ بھی
وفور تشنہ لبی ہو اگر تو خم ہے سبو
جنوں اور اہل جنوں کا وہ قحط ہے تابشؔ
اٹھا نہ دشت سے پھر کوئی نعرۂ یاہو
غزل
بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو
تابش دہلوی