EN हिंदी
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے | شیح شیری
bahut be-kar mausam hai magar kuchh kaam karna hai

غزل

بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے

عباس تابش

;

بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے
کہ تازہ زخم ملنے تک پرانا زخم بھرنا ہے

ابھی سادہ ورق پر نام تیرا لکھ کے بیٹھا ہوں
ابھی اس میں مہک آنی ہے تتلی نے اترنا ہے

بڑھے جو حبس تو شاخیں ہلا دینا کہ اب ہم کو
ہوا کے ساتھ جینا ہے ہوا کے ساتھ مرنا ہے

مبادا اس کو دقت ہو نشانے تک پہنچنے میں
سو میں نے پھول سے دیوار کے رخنے کو بھرنا ہے

یہی اک شغل رکھنا ہے اذیت کے دنوں میں بھی
کسی کو بھول جانا ہے کسی کو یاد کرنا ہے

کوئی چہرہ نہ بن پایا مقدر کی لکیروں سے
سو اب اپنی ہتھیلی میں مجھے خود رنگ بھرنا ہے

کوئی رستہ ملے کیوں کر مرے پائے خجالت کو
یہاں تو پاؤں دھرنا بھی کوئی الزام دھرنا ہے

وہ ہر لمحہ دعا دیتے ہیں لمبی عمر کی تابشؔ
مجھے لگتا ہے پیاروں کو بھی رخصت میں نے کرنا ہے