بہار آئی ہے پھر پیرہن گلابی ہو
وہ چاند آئے سر انجمن گلابی ہو
سیاہ رات سی چھائی وہ زلف چہرے پر
جبین ناز گلابی بدن گلابی ہو
کھلیں جو بند قبا رات جگمگا اٹھے
مہکتی سیج شکن در شکن گلابی ہو
ہوا کی لرزشیں دہکاتیں عارض و لب کو
حیا کی موج سے سارا بدن گلابی ہو
وہ ہونٹ چپ ہوں تو آنکھوں میں پھول سے جھمکیں
ہلیں تو ساری فضائے سخن گلابی ہو
گلال اس طرح برسائے کوئی چار طرف
چمن گلابی ہوائے چمن گلابی ہو
سیاہیٔ شب ہجراں سیاہ تر نہ کرو
جو ہو تو چاند کا میرے گہن گلابی ہو
وطن سے دور بہاروں کو کھوجنے والے
جو ان دنوں میں زمین وطن گلابی ہو

غزل
بہار آئی ہے پھر پیرہن گلابی ہو
صفدر میر