بہار آئی ہے آرائش چمن کے لیے
مری بھی طبع کو تحریک ہے سخن کے لیے
خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے کبھی
تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے
وطن میں آنکھ چراتے ہیں ہم سے اہل وطن
تڑپتے رہتے ہیں غربت میں ہم وطن کے لیے
چمن کے دام سے جائیں گے ہم کہاں صیاد
قفس فضول ہے پروردۂ چمن کے لیے
میں قید اشک سے آزاد ہوں محبت میں
کہ تجھ کو شمع بنانا ہے انجمن کے لیے
زبان اہل بصیرت پہ عرض حیرت ہے
سکوت داد ہے گویا مرے سخن کے لیے
فروغ طبع خدا داد گرچہ تھا وحشتؔ
ریاض کم نہ کیا ہم نے کسب فن کے لیے
غزل
بہار آئی ہے آرائش چمن کے لیے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی