بہہ رہا تھا ایک دریا خواب میں
رہ گیا میں پھر بھی تشنہ خواب میں
جی رہا ہوں اور دنیا میں مگر
دیکھتا ہوں اور دنیا خواب میں
اس زمیں پر تو نظر آتا نہیں
بس گیا ہے جو سراپا خواب میں
روز آتا ہے مرا غم بانٹنے
آسماں سے اک ستارہ خواب میں
مدتوں سے دل ہے اس کا منتظر
کوئی وعدہ کر گیا تھا خواب میں
کیا یقیں آ جائے گا اس شخص کو
اس کی بابت جو بھی دیکھا خواب میں
ایک بستی ہے جہاں خوش ہیں سبھی
دیکھ لیتا ہوں میں کیا کیا خواب میں
اصل دنیا میں تماشے کم ہیں کیا
کیوں نظر آئے تماشہ خواب میں
کھول کر آنکھیں پشیماں ہوں بہت
کھو گیا جو کچھ ملا تھا خواب میں
کیا ہوا ہے مجھ کو عالمؔ ان دنوں
میں غزل کہتا نہیں تھا خواب میں
غزل
بہہ رہا تھا ایک دریا خواب میں
عالم خورشید