بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے
بس اب ذلیل نہ کر اے نگاہ یاس مجھے
یہ دل ہے شوق میں بے خود وہ آنکھ نشہ میں چور
جھکا نہ دے سوۓ ساغر بھڑکتی پیاس مجھے
ادھر ملامت دنیا ادھر ملامت نفس
بڑا عذاب ہے آئے ہوئے حواس مجھے
پلٹ دو بات نہ لو منہ سے نام رخصت کا
ابھی سے گھر نظر آنے لگا اداس مجھے
جو ملتفت ہیں یہ نظریں بدل بھی سکتی ہیں
بنا چکا ہے زمانہ ادا شناس مجھے
غزل
بغور دیکھ رہا ہے ادا شناس مجھے
آرزو لکھنوی