EN हिंदी
بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا | شیح شیری
baDi sard raat thi kal magar baDi aanch thi baDa taw tha

غزل

بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا

شمیم عباس

;

بڑی سرد رات تھی کل مگر بڑی آنچ تھی بڑا تاؤ تھا
سبھی تاپتے رہے رات بھر ترا ذکر کیا تھا الاؤ تھا

---
---

وہ زباں پہ تالے پڑے ہوئے وہ سبھی کے دیدے پھٹے ہوئے
بہا لے گیا جو تمام کو مری گفتگو کا بہاؤ تھا

---
---

کبھی مے کدہ کبھی بت کدہ کبھی کعبہ تو کبھی خانقاہ
یہ تری طلب کا جنون تھا مجھے کب کسی سے لگاؤ تھا

At times taverns, temples times, mosques and times, monasteries
`twas frenzy of my search for you, else when was I attached to these.

چلو مانا سب کو تری طلب چلو مانا سارے ہیں جاں بلب
پہ ترے مرض میں یوں مبتلا کہیں ہم سا کوئی بتاؤ تھا

---
---

یہ مباحثے یہ مناظرے یہ فساد خلق یہ انتشار
جسے دین کہتے ہیں دین دار مری روح پر وہی گھاؤ تھا

مجھے کیا جنون تھا کیا پتا جو جہاں کو روندتا یوں پھرا
کہیں ٹک کے میں نے جو دم لیا تری ذات ہی وہ پڑاؤ تھا