بڑھ گئیں گستاخیاں میری سزا کے ساتھ ساتھ
پیار آتا ہے تری جور و جفا کے ساتھ ساتھ
ضعف سے راہ محبت میں قدم اٹھتے نہیں
پاؤں جمتے ہیں زمیں پر نقش پا کے ساتھ ساتھ
چھوٹ کر کنج قفس سے نکہت گل کی طرح
ہم بھی اڑ کر جائیں گے باد صبا کے ساتھ ساتھ
سرد آہوں سے پھنکا جاتا ہے سینے میں جگر
آتش غم تیز ہوتی ہے ہوا کے ساتھ ساتھ
میرے آنسو بھی بہے جوش محبت میں عزیزؔ
میرے نالے بھی رہے میری دعا کے ساتھ ساتھ
غزل
بڑھ گئیں گستاخیاں میری سزا کے ساتھ ساتھ
عزیز حیدرآبادی