بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے
سو تاحد نظر وہم و گماں پھیلا ہوا ہے
ہمارے پاؤں سے کوئی زمیں لپٹی ہوئی ہے
ہمارے سر پہ کوئی آسماں پھیلا ہوا ہے
یہ کیسی خامشی میرے لہو میں سرسرائی
یہ کیسا شور دل کے درمیاں پھیلا ہوا ہے
تمہاری آگ میں خود کو جلایا تھا جو اک شب
ابھی تک میرے کمرے میں دھواں پھیلا ہوا ہے
حصار ذات سے کوئی مجھے بھی تو چھڑائے
مکاں میں قید ہوں اور لا مکاں پھیلا ہوا ہے
غزل
بدن سمٹا ہوا اور دشت جاں پھیلا ہوا ہے
سالم سلیم