بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں
جنوں کی بھولی ہوئی رسم کا اعادہ کریں
تمام اگلے زمانوں کو یہ اجازت ہے
ہمارے عہد گزشتہ سے استفادہ کریں
انہیں اگر مری وحشت کو آزمانا ہے
زمیں کو سخت کریں دشت کو کشادہ کریں
چلو لہو بھی چراغوں کی نذر کر دیں گے
یہ شرط ہے کہ وہ پھر روشنی زیادہ کریں
سنا ہے سچی ہو نیت تو راہ کھلتی ہے
چلو سفر نہ کریں کم سے کم ارادہ کریں
غزل
بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں
منظور ہاشمی