EN हिंदी
بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی | شیح شیری
badal saka na judai ke gham uTha kar bhi

غزل

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

ریاض مجید

;

بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی

میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی

میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں
وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی

ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی

اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی

وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا
ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی

کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا
سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی

رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی ریاضؔ
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی