بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے
جس میں ہم ایسوں کو اچھا خاصا رونا آتا ہے
سب اس شخص سے مل کر بالکل تازہ دم ہو جاتے ہیں
پھر اس دن تصویر میں سب کا چہرہ اچھا آتا ہے
باغ سے پھول چرانے والی لڑکی کو یہ کیا معلوم
اس کے قدموں کی ہر چاپ پہ پھول کو کھلنا آتا ہے
ہم یہ بات بڑے بوڑھوں سے اکثر سنتے آئے ہیں
دائیں ہاتھ میں کھجلی ہو تو جیب میں پیسہ آتا ہے
جب بھی اس کو رشتے کی تصویر دکھائی جاتی ہے
اس کے ذہن میں فوراً میرے جیسا لڑکا آتا ہے
ہم سایے کی اونچی دیواروں سے اتنا فرق پڑا
پہلے گھر میں دھوپ آ جاتی تھی اب سایا آتا ہے
اس آواز کو سننے والے کان مبارک کہلاتے ہیں
ان آنکھوں کو دیکھنے والو خواب میں دریا آتا ہے

غزل
بعض اوقات فراغت میں اک ایسا لمحہ آتا ہے
وسیم تاشف