EN हिंदी
باتوں سے ستم گر مجھے بہلاتا رہا وہ | شیح شیری
baaton se sitamgar mujhe bahlata raha wo

غزل

باتوں سے ستم گر مجھے بہلاتا رہا وہ

سرور مجاز

;

باتوں سے ستم گر مجھے بہلاتا رہا وہ
ملنے میں تو ہر بار ہی اپنوں سا لگا وہ

کیا کیا مری خواہش کے مذاق اس نے اڑائے
کیا کیا نہیں دیتا رہا جینے کی سزا وہ

جب بھی کبھی اس نے مجھے مقتل میں سجایا
مجھ کو تو بس اپنا ہی طرفدار لگا وہ

جس نے بھی مرا ساتھ دیا راہ وفا میں
اک شخص کی دہشت سے مجھے چھوڑ گیا وہ

ایسا کبھی دیکھا نہ سنا جور کا خوگر
ہر بار جفا کر کے بھی ہوتا تھا خفا وہ

کرتا تھا مروت میں کبھی مشق ستم بھی
کہتا تھا مرے خوں کو کبھی رنگ حنا وہ