بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے
لب رسیلے نہ رہے نین نشیلے نہ رہے
اشک برسے تو دروں خانۂ جاں سیل گیا
درد چمکا تو در و بام بھی گیلے نہ رہے
پھول سے باس جدا فکر سے احساس جدا
فرد سے ٹوٹ گئے فرد قبیلے نہ رہے
ٹیس اٹھتی ہے مگر چیخ نہیں ہو پاتی
تیرے پھینکے ہوئے پتھر بھی نکیلے نہ رہے
موت نے چھین لیا رنگ بھی نم بھی خالدؔ
آنکھ بھی سوکھ گئی ہونٹ بھی نیلے نہ رہے
غزل
بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے
خالد احمد