بارش کی رت تھی رات تھی پہلوئے یار تھا
یہ بھی طلسم گردش لیل و نہار تھا
کہتے ہیں لوگ اوج پہ تھا موسم بہار
دل کہہ رہا ہے عربدۂ زلف یار تھا
اب تو وصال یار سے بہتر ہے یاد یار
میں بھی کبھی فریب نظر کا شکار تھا
تو میری زندگی سے بھی کترا کے چل دیا
تجھ کو تو میری موت پہ بھی اختیار تھا
او گانے والے ٹوٹتے تاروں کے ساز پر
میں بھی شہید طول شب انتظار تھا
پلکیں اٹھیں جھپک کے گریں پھر نہ اٹھ سکیں
یہ اعتبار ہے تو کہاں اعتبار تھا
یزداں سے بھی الجھ ہی پڑا تھا ترا ندیمؔ
یعنی ازل سے دل میں یہی خلفشار تھا
غزل
بارش کی رت تھی رات تھی پہلوئے یار تھا
احمد ندیم قاسمی