EN हिंदी
بار بار ایک ہی نظارہ نہ دکھلایا کر | شیح شیری
bar bar ek hi nazzara na dikhlaya kar

غزل

بار بار ایک ہی نظارہ نہ دکھلایا کر

خاقان خاور

;

بار بار ایک ہی نظارہ نہ دکھلایا کر
بات دل کش بھی اگر ہو تو نہ دہرایا کر

لوگ گر جاتے ہیں مٹی کے گھروندوں کی طرح
اس طرح بارش دیدار نہ برسایا کر

پیڑ کا سایا نہیں ٹوٹا ہوا پتہ ہوں
مجھ کو جذبات کے دریا میں نہ ٹھہرایا کر

ٹوٹ جائے نہ کسی روز ترا شیش محل
یوں سر راہ نہ دیوانوں کو سمجھایا کر

میرے احساس کو اک پھول بہت ہے خاورؔ
میرے احساس پہ یوں سنگ نہ برسایا کر