باقی ہے تاب ضبط نہ طاقت فغاں کی ہے
حالت بہت سقیم دل ناتواں کی ہے
آنکھوں میں جوش ہے کبھی طوفان نوح کا
دل میں مرے تڑپ کبھی برق تپاں کی ہے
اے آہ نارسا ترے نالے ہیں بے اثر
بہتر یہی ہے بات رہے جو جہاں کی ہے
ہوتا ہے جوش گر یہ جو اب بات بات پر
دل میں مرے یہ چوٹ الٰہی کہاں کی ہے
اے دل تجھے نتیجۂ الفت ہے خوب یاد
اور پھر بھی آرزو تجھے کوئے بتاں کی ہے
جس کو سمجھ رہے ہیں وہ بادل کی اک گرج
فریاد دردناک کسی خستہ جاں کی ہے
بلبل ہے خوش کہ باغ میں ہے خاک آشیاں
یہ کون جانتا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے
سونے دیا نہ شور قیامت نے قبر میں
سمجھا تھا میں کہ جائے یہ امن و اماں کی ہے
رنگ شفق سے شام کو ملتا ہے یہ پتا
اب آسماں پہ گرد مرے کارواں کی ہے
منصور کی فنا ہے بقائے صدائے حق
آواز وادیوں میں ابھی تک اذاں کی ہے
سمجھا رہا ہوں دل کو نہیں پھر بھی اعتماد
وہ بات کہہ رہا ہوں جو ان کی زباں کی ہے
ہے دل گداز یوں بھی مری داستان غم
تاثیر اس پہ کچھ مرے طرز بیاں کی ہے
حافظؔ یہ کائنات نہ ہو جائے جل کے خاک
بڑھتی ہوئی تپش مرے سوز نہاں کی ہے

غزل
باقی ہے تاب ضبط نہ طاقت فغاں کی ہے
محمد ولایت اللہ