بانیٔ شہر ستم مظلوم کیسے ہو گیا
کل جو مجرم تھا وہ اب معصوم کیسے ہو گیا
محتسب سچ سچ بتا خلوت میں کیا سودا ہوا
مدعی انصاف سے محروم کیسے ہو گیا
طائر آزاد زیر دام کیسے آ گیا
وہ خیال منتشر منظوم کیسے ہو گیا
کیوں شرافت کو حماقت کا دیا لوگوں نے نام
فتنۂ شر خیر سے موسوم کیسے ہو گیا
کس طرح اہل جنوں اہل خرد سمجھے گئے
عقل کا دیوانگی مفہوم کیسے ہو گیا
مجھ سے ملنا تو تجھے مشکل تھا اے مطلب کے یار
اب مرے گھر کا پتہ معلوم کیسے ہو گیا
کیا ہیں اسباب زوال مسلم آشفتہ حال
کل جو حاکم تھا وہ اب محکوم کیسے ہو گیا
جو یہ کہتا تھا کہ میں ہوں اک نشان لا زوال
نقش فانی کی طرح معدوم کیسے ہو گیا
بول اے تائب مٹا نقش سویدا کس طرح
لوح دل پر لفظ حق مرقوم کیسے ہو گیا
قوم کا قاعد ہے وہ جو اس کا خدمت گار ہے
جس نے خدمت ہی نہ کی مخدوم کیسے ہو گیا
بھر دیئے اوہام کس نے ذہن ملت میں جلالؔ
چشمۂ آب بقا مسموم کیسے ہو گیا

غزل
بانیٔ شہر ستم مظلوم کیسے ہو گیا
قاسم جلال