بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب
راحت جاں کوئی دلبر نہیں جلاد ہیں سب
کبھی طوبیٰ ترے قامت سے نہ ہوگا بالا
باتیں کہنے کی یہ اے غیرت شمشاد ہیں سب
مژہ و ابرو و چشم و نگہ و غمزہ و ناز
حق جو پوچھو تو مری جان کے جلاد ہیں سب
سرو کو دیکھ کے کہتا ہے دل بستۂ زلف
ہم گرفتار ہیں اس باغ میں آزاد ہیں سب
کچھ ہے بیہودہ و ناقص تو امانتؔ کا کلام
یوں تو کہنے کو فن شعر میں استاد ہیں سب
غزل
بانی جور و جفا ہیں ستم ایجاد ہیں سب
امانت لکھنوی