بال و پر رکھتے نہیں عزم سفر رکھتے ہیں
شوق پرواز بہ انداز دگر رکھتے ہیں
ہاتھ اٹھانے کی کوئی شرط دعا میں کب ہے
تیرے عشاق نگاہوں میں اثر رکھتے ہیں
بالارادہ نہ سہی یوں ہی کبھی آ جاؤ
پیار کے رستے میں ہم چھوٹا سا گھر رکھتے ہیں
یہ الگ بات کہ آتے ہیں نظر ذرہ صفت
ورنہ قدموں میں تو ہم شمس و قمر رکھتے ہیں
دھوپ ہے ریت ہے اور اپنا سفر ہے جاری
سایہ رکھتے ہیں نہ ہم لوگ شجر رکھتے ہیں
اس طرف والے نظر آتے ہیں لرزیدہ مگر
اس طرف والے کف دست پہ سر رکھتے ہیں
پر سکوں ہے جو فضا اس پہ نہ جانا انجمؔ
آشیاں کتنے ابھی برق و شرر رکھتے ہیں

غزل
بال و پر رکھتے نہیں عزم سفر رکھتے ہیں
مشتاق انجم