باہر دمکتی برف میں اندر مہکتی رات میں
اس کے بدن کا پھول ہے جیسے ہوا کے ہات میں
کھڑکی سے چھنتے چاند میں نزدیک آتش دان کے
زلفوں کا سایہ اوڑھ کے بیٹھی ہیں آنکھیں گھات میں
اس کے لبوں سے ٹوٹ کر سیماب مے گرنے لگا
گیلے گلابوں سے اڑے جگنو اندھیری رات میں
اک نیم روشن کنج کی جادوگری سمٹی ہوئی
شانوں کے سیمیں حرف میں آنکھوں کی نیلی بات میں
اڑتا ہوا اک لفظ سا ہونٹوں نے آنکھوں سے کہا
تحریر میں آنے لگا بکھرا ہوا جذبات میں

غزل
باہر دمکتی برف میں اندر مہکتی رات میں
جمشید مسرور