EN हिंदी
بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے | شیح شیری
baadal umDe hain dhuan-dhaar ghaTa chhai hai

غزل

بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے

دتا تریہ کیفی

;

بادل امڈے ہیں دھواں دھار گھٹا چھائی ہے
دھوئیں توبہ کے اڑانے کو بہار آئی ہے

تا کہ انگور ہرے ہوں مرے زخم دل کے
دھانی انگیا مرے دل دار نے رنگوائی ہے

تیرہ بختی سے ہوئی مجھ کو یہ خفت حاصل
دل وحشت میں سویدا کی جگہ پائی ہے

یہ چلن ہیں تو تمہیں حشر سے دیں گے تشبیہ
لوگ سفاک کہیں گے بڑی رسوائی ہے

موت کو زیست سمجھتا ہوں میں بیتابی سے
تری فرقت نے یہ حالت مری پہنچائی ہے

صبر ہجراں میں کرے کیفیؔٔ محزوں کب تک
آخر اے دوست کوئی حد شکیبائی ہے