بادل کی طرح رنج فشانی کریں ہم بھی
شاید کبھی اس آگ کو پانی کریں ہم بھی
اب سلسلۂ قصۂ شب ٹوٹ رہا ہے
اب اذن عطا ہو تو کہانی کریں ہم بھی
ہم کو بھی کبھی دیکھ ہواؤں کے سفر میں
صحرا کی طرح نقل مکانی کریں ہم بھی
ایسا ہے کہ سکوں کی طرح ملک سخن میں
جاری کوئی اک یاد پرانی کریں ہم بھی
اس لمحۂ رخصت کے دھڑک اٹھنے سے پہلے
ٹھہرے ہوئے دل تجھ کو نشانی کریں ہم بھی
غزل
بادل کی طرح رنج فشانی کریں ہم بھی
سعود عثمانی