بادل برس کے کھل گیا رت مہرباں ہوئی
بوڑھی زمیں نے تن کے کہا میں جواں ہوئی
مکڑی نے پہلے جال بنا میرے گرد پھر
مونس بنی رفیق بنی پاسباں ہوئی
شب کی رکاب تھام کے خوشبو ہوئی جدا
دن چڑھتے چڑھتے بسری ہوئی داستاں ہوئی
کرتے ہو اب تلاش ستاروں کو خاک پر
جیسے زمیں زمیں نہ ہوئی آسماں ہوئی
اس بار ایسا قحط پڑا چھاؤں کا کہ دھوپ
ہر سوکھتے شجر کے لیے سائباں ہوئی
گیلی ہوا کے لمس میں کچھ تھا وگرنہ کب
کلیوں کی باس گلیوں کے اندر رواں ہوئی
آنا ہے گر تو آؤ کہ چلنے لگی ہوا
کشتی سمندروں میں کھلا بادباں ہوئی
غزل
بادل برس کے کھل گیا رت مہرباں ہوئی
وزیر آغا