بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایماں یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر
اے آہ کہہ دے تیر کا نامہ نکال کر
اترے گا ایک جام بھی پورا نہ چاک سے
خاک دل شکستہ نہ صرف کلال کر
لے کر بتوں نے جان جب ایماں پہ ڈالا ہاتھ
دل کیا کنارے ہو گیا سب کو سنبھال کر
تصویر ان کی حضرت دل کھینچ لیجے گر
رکھ دیں گے ہم بھی پاؤں پہ آنکھیں نکال کر
قاتل ہے کس مزے سے نمک پاش زخم دل
بسمل ذرا تڑپ کے نمک تو حلال کر
دل کو رفیق عشق میں اپنا سمجھ نہ ذوقؔ
ٹل جائے گا یہ اپنی بلا تجھ پہ ٹال کر
غزل
بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
شیخ ابراہیم ذوقؔ